*اللہ كرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے ۔۔۔!*
(عبدالباسط عابد)
كچھ لوگوں پر جان دينے كو جى چاہتا ہے، يہ لوگ بڑے عجيب ہوتے ہيں، محبت كے امين ہوتے ہيں، پيار برساتے رہتے ہيں، محبت اور آسانيوں كى دولت بانٹتے رہتے ہيں، خلوص نچھاور كرتے رہتے ہیں، اخلاص سكھاتے رہتے ہيں، كردار بناتے رہتے ہيں، تعمير قوم ميں لگے رہتے ہيں، حيات ميں ترقى و خوشحالى كے رنگ بھرتے رہتے ہيں، يہ لوگ معاشرے كے ليے آكسيجن ہوتے ہيں، سانس لينا آساں كرتے ہيں، گھٹن كا گلا گھونٹ ديتے ہيں، مثبت رويوں كى آبيارى كرتے ہيں، منفى سوچوں كو تہہ و بالا كرتے ہيں۔
يہ لوگ وفا كا نقش ہوتے ہيں تازہ ہوا كا جھونكا ہوتے ہيں، يہ لوگ پھول ہوتے ہيں، خوشبو ہوتے ہيں، تتلى ہوتے ہيں، جگنو ہوتے ہيں، بلكہ مختصر يوں كہيے كہ زندگى، محبت، معرفت اور بلند نگاہى سكھانے والا قطبى ستارہ ہوتے ہيں۔ پاكستان ميں ايسا ہى ايك روشن، و دمكتا رہنمائى كے اجالے بانٹتا قطبى ستارہ ’’ابراہيم بن بشير الحسينوى‘‘ ہے۔ جس پر جان دينے كو جى چاہتا ہے، كيوں؟ چليے پڑھتے ہيں اس كيوں كا جواب:
پانچ سال قبل جب پہلى بار مَيں حسينوى صاحب سے ملا تو انھيں سمجھنے كے ليے عظيم يونانى فلاسفر ارسطو كے اس اصول كا سہارا ليا: ’’اگر انسان كى فطرت يا اس كے مزاج كا اندازہ لگانا ہو تو اس كے معمولى اور چھوٹے چھوٹے كاموں سے لگاؤ، كيونكہ بڑے بڑ ے كام تو وہ سوچ سمجھ اور محتاط ہو كر ہى كرتا ہے، جو بعض اوقات اس كى فطرت يا مزاج كے خلاف بھى ہوسكتے ہيں۔‘‘
بلاشبہ ان كى سرشت اور طبعيت انتہائى علم دوست، انسان دوست، دور انديش اور جاذب نظر ہے۔ ميں ان كے بارے ميں وہ واقعہ كبھى نہيں بھول سكتا جو ميرے تجويد كے استاذ جناب قارى رحمت اللہ صاحب كنگن پورى نے سنايا، محدثين كى ياد تازہ كرنے والا يہ واقعہ ان كے اخلاص اور علم حديث كى تڑپ كے ليے كافى ہے: ’’شیخ حسینوی میرے کلاس فیلو تھے، زمانہ طالبعلمى ميں روزانہ بعد نماز ظہر مطالعہ اور تصنیفی کام کے لیے لائبريرى كا رخ كرتے، رات دس گیارہ بجے واپس مدرسہ آتے تب تك تمام طلباء عشائیہ سے فارغ ہوچكے ہوتے، اور كھانا بھى تقريبا ختم ہوچكا ہوتا تھا، حسينوى صاحب كچن ميں جاتے اور طلبہ کے بچےکھچے روٹى كے ٹکڑے پانى كے ساتھ بھگو بھگو كر مزے سے كھاتے، لیکن مطالعہ تصنیفی اورتحقیقی کاموں میں ركاوٹ نہ آنے ديتے۔
ملتِ اسلامیہ کے عظیم محسن ڈاکٹر محمد عبداللہ اعظمی حفظہ اللہ (مدينہ يونيورسٹى) نے حسينوى صاحب كا حديث پر كام ديكھ كر كبار علماء اور محدثين كى ايك مجلس ميں حسينوى صاحب كو مخاطب کرکے کہا کہ حسينوى صاحب! آپ جیسے شخص کو مدینہ منورہ میں ہونا چاہیے تاکہ آپ عظیم کارنامے سرانجام دے سکیں، اور دوسرے سفر حرمین میں اپنی قیمتی کتاب الجامع الکامل شیخ حسینوی صاحب کو ہدیہ دی، جس پر حسينوى صاحب نے كام كيا۔ اس وقت حسينوى صاحب كى دو درجن سے زائد كتب منظر عام پر آچكى ہيں، اور بيسيوں كتب پر ابھى كام جارى ہے۔
آج اس شخصیت كے تلامذہ پورى دنیا ميں موجود ہيں، بیک وقت کئی کام کررہے ہیں، ان كا آبائى شہر قصور ہے، جو اولياءاللہ كا شہر ہے، وہاں كوئى بڑى دینى درسگاہ نہ تھى، انہى جذبوں كو دل ميں سموئے كسى بھى جماعتى وابستگى اور تعاون كے بغير اگست 2014ء ميں حسينوى صاحب نے قصور ميں ’’جامعہ امام احمد بن حنبل‘‘ كے نام سے مدرسہ كى بنياد ركھى، پچھلے دنوں جب جامعہ احمد بن حنبل ميں جانا ہوا تو شيخ حسينوى صاحب كے كام كو ديكھ كر دل پسيج گيا، ايك عام اور سادہ سى بلڈنگ جہاں كوئى بنيادى سہوليات بھى ميسر نہ ہيں، ليكن پھر بھى طلباء كا علم حديث كے ليے ذوق اور شوق ديكھ كر دل بہت خوش ہوا، ان سب سے بڑھ كر شيخ حسينوى كا بے سرو سامانى كے باوجود دنیا کے جدید حالات، اسلام پر ماڈرن ريسرچ، دينى اور دنياوى تقاضوں سے آگاہ اور باخبر، انٹرنیٹ پر مسلسل نہ صرف اکثر محدثین سے رابطے میں رہتے ہیں، بلکہ پاكستان ميں پہلى بار ’’ابن ِحنبل آن لائن یونيورسٹى‘‘ كو علامہ اقبال اوپن يونيورسٹى كى طرز پر لانچ كيا، جس سے تقريباً پورى دنيا سے طلباء مختلف كورسز تفسير، حديث، وراثت اور ديگر كئى اسلامى فنون سے مستفيد ہورہے ہيں، اور سب سے دلچسسپ بات يہ ہے كہ ابراہيم بن بشير الحسينوى يہ سارا كام ايك پيشہ ور آدمى كى طرح دھن دولت كمانے كے ليے نہيں، بلكہ ايك بے لوث انداز ميں كررہے ہيں، ايسے لگتا ہے كہ قدرت نے اپنى مخلوق كى خدمت كے ليے انہيں اس كام پر لگا ديا ہے۔ فجزاہ اللہ خير الجزاء
محترم قارئين! ہم مدارس سے پڑھے ہوئے احباب سے ہمارى يہ درس گاہيں خراج مانگتى ہيں، كيونكہ ہم مدارس كى ضروريات كو زيادہ آسانى سے سمجھتے ہيں، پاكستان ميں اس وقت تقريبا 20 لاكھ طلباء مدارس اور جامعات سے فارغ التحصيل ہيں، اگر ہم ان مدارس كى اپنى اپنى استطاعت سے مدد كريں تو ان شاءاللہ يہ قرآن و حديث كے چمنستان يونہى لہلاتے رہيں گے۔ ميرى بات كى وضاحت مندرجہ ذيل واقعہ سے زيادہ واضح ہوگى:
ميرے ايك دوست امريكہ ميں ڈاكٹر ہيں ايك دن مجھے كہنے لگے: باسط بھائى، ميں جب بھى پاكستان آتا ہوں تو جس سكول سے ميں نے ميٹرك تك تعليم حاصل كى ہے اس كو كبھى نہيں بھولتا، ميں نے سوچا شايد اساتذہ اور مادرعلمى سے جو پيار ہوتا ہے اس كى بات كررہے ہيں ہوں گے، پھر ايك دن مجھے بتانے لگے كہ جب ميں اس سكول ميں پڑھتا تھا تب اس كا ايك كمرہ اور چارديوارى ہوتى تھى، ميں ڈاكٹر بنا اور امريكہ ميں سيٹ ہوگيا تو جب ميں پہلى بار پاكستان آيا تو اپنے اسكول كا وزٹ كيا، ہيڈماسٹر كو ملا اور اپنى خواہش كا اظہار كيا كہ ميں اس ايك كمرے كو چار كمرے كرنا چاہتا ہوں، اس كے ليے يہ دس لاكھ ركھ ليجيے، جب ميں دوبارہ آيا تو چار كمرے اور چار ديوارى موجود تھى، اب ميں نے اس ميں پينے كے پانى كا ٹھنڈا كولر لگوايا ہے، ميں يہ سب سن كر حيران ہوا كہ يہ دنياوى تعليم كے ليے اپنے مادرعلمى سے محبت كررہے ہيں، اور ايك ہم ہيں جو دينى مدارس كى طرف مڑ كر بھى نہيں ديكھتے… !
الغرض حسينوى صاحب كے ارادوں كى طلاطم خيز موجيں ايك فائيوسٹار يونيورسٹى مانگتى ہيں، جو ان كا خواب ہے، اور اللہ كے ليے اٹھايا گيا قدم كبھى پيچھے نہيں ہٹتا، بلكہ آگے اور آگے اور آگے ہى بڑھتا جاتا ہے۔
ميں نے كئى مدارس دیكھے ہيں، سب ميں ايك جيسا نظامِ تعليم ہے، انفرادى طور پر ہر ادارہ اپنى نظر ميں بہترين كام كررہا ہے، ليكن اجتماعى طور پر پاكستان میں كوئى معیارى درسگاہ اور يونيورسٹى نہ بن سكى جس كا طرز تعليم جديد ضرورتوں اور دنياوي تعليم كے ہم آہنگ ہو، پاكستان ايك اسلامى اور مذہب پسند لوگوں كا ملك ہے، یہاں تو حكومتى سطح پر اوپن يونيورسٹى طرز كى يا مذہبى جماعتوں كے سفارتى تعلقات كى بناء پر مدينہ یونيورسٹى كى برانچ ہونى چاہيے تھى۔غالباملائيشيا يا برونائى ميں مدينہ يونيورسٹى كے كيمپس موجود ہيں، نہايت افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ ہمارى حكومتيں اور مذہبى جماعتيں مدينہ يونيورسٹى تو دور كى بات، مدينہ يونيورسٹى كے فارغ التحصيل طلباء كو حكومتى اور پرائيويٹ يونيورسٹيز ميں ليكچرار ركھنے سے بھى گريزاں ہيں۔ اس پر اگر مل كر كمپين شروع كى جائے اور سعودى حكومت سے سفارتى سطح پر عمران خان كى حكومت پر دباؤ ڈالا جائے تو ہمارے فاضلينِ مدينہ پاكستان كو مدينہ جيسى رياست بنانے ميں كليدى كردار ادا كرسكتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Ibn e Bashir
عبدالباسط عابد
(رائٹر، ٹرينر، موٹيويٹر، سوشل ريفارمر)
0 تبصرے