حسینوی علمائے کرام کے بہت سے مخطوطات اور نوادرات ملتے رہتے ہیں جنھیں پی ڈی ایف کی شکل میں یہاں جمع کیا جائے گا تاکہ امت ان سے مستفید ہو سکے ۔
حسینوی سے مراد وہ علمائے کرام جو حسین خان والا ہٹھاڑ تحصیل و ضلع قصور یا پتوکی والے حسین خان والا کے ہیں
مخطوط بیاض ابراہیمی
حسینوی علماء میں سے میرے دادا جی محمد یعقوب کے چچازاد بھائی مولانا حکیم ابراہیم بن اسماعیل بن ہستہ فاضل جامعہ رحمانیہ دہلی کی بیاض 268صفحات پر مشتمل ہے ملی ہے۔مولانا حکیم ابراہیم رحمہ اللہ 1906ء کو حسین خان والا پٹھاڑ قصور میں پیدا ہوئے ۔میرے شاگرد مولانا حافظ عامر حسینوی حفظہ اللہ کے پڑدادا جی تھے۔۔وہ بیک وقت عالم دین ۔شاعر۔حکیم اور گاؤں کے نمبر دار بھی تھے ۔ان کی بیاض میں جو علم و حکمت سے بھری ہوئی ہے ۔دیکھ کر دل خوش ہوگیا ۔ان شاء اللہ اسے شائع کیا جائے گا ۔
مولانا حکیم ابراہیم بن مولانا اسماعیل بن ہستہ حسینوی رحمہ اللہ
آپ کا مکمل نام ابراہیم بن اسماعیل بن ہستہ بن حسن بن حاکم بن حیات
آپ اپنے دور کے جید عالم دین ، شاعر، گاؤں کے نمبر دار اور حکیم تھے،آپ پرائمری سکول پاس تھےاور جامعہ رحمانیہ دہلی سے فارغ التحصیل تھے ، مولانا عبدالرحیم محدث حسینوی رحمہ اللہ کے ساتھ جامعہ رحمانیہ دہلی پڑھتے رہے۔دینی تعلیم سے فراغت کےبعد بعض جگہوں پر تدریس بھی کرتے رہے ۔پھر آپ خلجیاں جاگیر نزد منڈی عثمان والا میںگورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گئے ، اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد آپ اپنے آبائی گاوں حسین خان والا ہٹھاڑ میں ہی رہے ۔گاؤں کے تین چار سو لڑکوں کو قرآن مجید پڑھا یا ۔
میرے سامنے مولا نا حکیم ابراہیم بن مولانا اسماعیل کے ہاتھ سے لکھی ہوئی بیاض ابراہیمی ہے جس کی مدد سے کچھ چیزیں ترتیب دینے کی سعی کی ہے ۔
بیاض ابراہیمی کے ٹائٹل پر درج ذیل معلومات لکھی ہوئی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بیاض ابراہیمی
اس بیاض سے فیض حاصل کرنے والا مصنف کے حق میں جو قبر میں محتاج ہے ، دعائے خیر کریں یعنی الحمدللہ وقل ھو اللہ و درودشریف سورۃ یسین پڑھ کر ضرور بخشو تاکہ مصنفہ کے گناہوں کا کفارہ ہو ۔
[بخشنے کا نظریہ درست نہیں ہے ۔الحسینوی]
الراقم آثم
ابراہیم ولد میان اسماعیل ولد ہستہ ولد حسن ولد حاکم ولد حیات قوم آرائیں جوئیے ساکن حسین خان والا تحصیل قصور ضلع لاہور ملک پاکستان جنرل گورنر محمد علی جناح صاحب
ابتدائے حکمت یکم جنوری ۱۹۳۰ ء ۵۵ سال ہوچکے ہیں ۱۹۶۱ء تک ۱۵۔۱۰۔۶۱
پیدائش عاجز ماہ دسمبر ۱۹۰۶ء
بیاض کے دوسرے صفحے سے مکمل کتاب کی فہرست بھی لکھی ہوئی ہے ۔
فہرست کے بعد کتاب کے شروع میں چار صفحات پرمشتمل اپنی بخشش کے لیے متعلق اشعار لکھے ہوئے ہیں ، پہلے دو صفحات عام اشعار ہیں صفحہ نمبر تین اور چار پر حروف تہجی کے اعتبار سے اشعارلکھے ہوئے ہیں ہر حرف میں چار اشعار لکھے ہوئے ہیں اور ر تک لکھے ہوئے ہیں ۔اس کے بعد حکیمانہ نسخوں کا ذکر ہے ۔چند صفحات کے بعد اپنے متعلق پھر لکھتے ہیں :عاجز کی فریاد اس بیاض سے فائدہ حاصل کرنے والوں کی خدمت میں یہ ہے کہ غریب گنہگار کے رحلت کرجانے کے بعد قرآن مجید سے کچھ نہ کچھ پڑھ کر بخشتے رہا[بخشنے کا نظریہ درست نہیں ہے ۔الحسینوی] کرنا نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے ۔خدارا بھول نہ جانا ۔
عاجز احقر الناس گنہگار بھلنہار بد کردار
حکیم ابراہیم ولد جناب بزرگوار میاں محمد اسماعیل صاحب
بقلم خود یکم جنوری ۱۹۳۰ء
تقریبا پہلے دس صفحات پر صفحہ نمبر نہین لکھے ہوئے ۔اس کے بعد مسلسل صفحات نمبر لکھے ہوئے ہیں ۔
صفحہ ۴۶ تا ۴۸ میں موصوف نے اپنے کتب خانہ کی فہرست بنائی ہے ۔
صفحہ ۱۰۲ پر وصیت لکھتے ہیں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میری عمر حکیم ابراہیم ولد میاں اسماعیل صاحب کی عمر تقریبا ۸۰ سال ہو چکی ہے ۔۔۔اپنے بیٹے دلدار اور بیٹی بلقیس کا نام لکھ کر وراثت کے متعلق وصیت کی ہے ۔۔۔
وصیت کے آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۔۲۔۷۸
صفحہ ۲۹۶پر لکھا ہوا ہے حساب یاد داشت کتب وقف شدہ مسجد حسین خان والا گاہے بگاہے واسطے مطالعے کے آمد ورفت
اس صفحہ اور ۲۹۷ صفحہ پر جو لوگ کتب لے کر جاتے تھے ان کے کتب لینے اور دینے کی تاریخیں اور دستخط موجود ہیں ۔
صفحہ ۳۷۸ تا ۳۸۱ میں ۱۹۲۱ ء میں طاعون کی تفصیل لکھی ہے اس میں ان کے رشتہ دار کو طاعون میں بیمار ہوئے ان پر بحث کی گئی ہے ۔ افسوس کلہ درمیان دو صفحے غائب ہیں ۔بیاض طبی نسخوں سے بھری ہوئی ہے بیاض کے آخر میں ص ۳۹۰ تا آخر تک گاؤں حسین خان والا کے کئی ایک پنچایتی فیصلے بھی تحریر ہیں وہ چونکہ گاوں کے نمبر دار بھی تھے وہ تمام فیصلے تحریر بھی کرتے تھے رحمہ اللہ
مولانا بشیر احمد عرف مالا رحمہ اللہ
آپ عالم دین تھے ، مختلف جگہوں پر دین کی خدمت کرتے رہے آخر اپنے گاوں حسین خان والا ہٹھاڑ میں اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی کرنے لگے ۔ بہت خوبصورت اور صحت مند تھے ۔ان کو مولانا حکیم ابراہیم صاحب نے ہی دینی علم کی طرف لگایا تھا اوربعد میں انھیں اپنی بیٹی بلقیس کا رشتہ بھی دے دیا ۔ماشاء صاحب اولاد تھے ،
بیاض ابراہیمی صفحہ ۳۰۵ پر لکھا ہوا ہے ابا جان مولوی بشیر احمد بروز سوموات تاریخ ۱۴۔۱۰۔۹۱ کو دن ۱۰ بجے قریب اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے انا للہ وانا الیہ راجعون اس وقت ابا کی عمر ۵۳ سال کی تھی ۔ محمد یحیی عزیز ۱۴۔۱۰۔۹۱
مولانا حکیم ابراہیم رحمہ اللہ کی بیٹی باجی بلقیس حفظہا اللہ نے بتایا کہ ابو جی موت سے چند لمحے پہلے ہمیں کہا کہ یہاں سے اٹھ جائیں میرے مہمان آگئے ہیں ۔۔پھر کہنے لگے وعلیکم السلام وعلیکم السلام ہم نے کہا: ابو جی کوئی بھی نہیں آیا کس کو وعلیکم السلام کہہ رہے ہیں ؟اور اسی وقت کلمے پڑھتے پڑھتے فوت ہوگئے ۔رحمہ اللہ
آپ کی دو شادیاں تھیں ایک سے بلقیس بیٹی تھی اور دوسری سے بابا دلدار اور دو بیٹیاں تھیں ۔ بابا جی دلدار کی اولاد میں محمد حنیف ،محمد سعید جوانی۱۹۹۳ میں ہی فوت ہو گئے تھے بڑے صالح انسان تھے ان کا ایک ہی بیٹا ہے جو کہ ہمارا شاگرد ہے مولانا حافظ عامر حسینوی حفظہ اللہ جوکہ بڑی صلاحیتوں کا مالک ہے اللہ تعالی ہمارے اس بیٹے کو محدث بنائے آمین وہ میری توجہ دلانے سے ہی جامعہ امام بخاری گندھیاں اوتاڑ میں داخل ہوئے اور مکمل تعلیم مجھ سے ہی حاص کی، فراغت کے بعد وہ میرے جامعہ امام محمد بن اسماعیل البخاری بھوئے آصل میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور صاحب اولاد ہیں ۔
بابا جی دلدار صاحب کے تیرے بیٹے عبدالعزیز اور چوتھے بیٹے عبدالرقیب
سب صاحب اولاد ہیں اور زراعت کھیتی باڑی کررہے ہیں ۔بابا جی دلدار کی دو بیٹیاں ہیں ، ایک بیٹی صاحبہ بے اولاد ہیں جو کہ ماسٹر منشا صاحب کی اہلیہ ہیں حسین خان والا ہٹھاڑ میں مقیم ہیں جبکہ دوسری بیٹی فتوحی میں مقیم ہیں ان کی اولاد میں سے مولانا عرفان حفظہ اللہ ہمارے شاگرد ہیں اور وہ رائیونڈ میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔
مولانا حکیم ابراہیم کے والد محترم میاں اسماعیل رحمہ اللہ
بھی عالم دین تھے ، ساری زندگی دین کی خدمت کرتے رہے ، حسینوی کبار علماء کے ساتھ اکٹھے ساری زندگی دین کا کام کرتے رہے ، مرکزی مسجد کے بانیوں میں سے ہیں ۔قرآن پڑھتے پڑھتے وفات پا گئے رحمہ اللہ
آپ صاحب اولاد تھے آپ کے بیٹے عبدالقادر کی اولاد میں سے ایک بیٹے مولانا نذیر رحمہ اللہ گزرے ہیں جنھوں نے ساری زندگی پل لالو کے نزد شام کوٹ میں گزاری وہاں ہی ان کی شادی ہوئی تھی وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی پھر ساری زندگی اس مسجد میں دین کی خدمت کی ، ان کی اولاد میں سے مولانا سیف اللہ جید عالم دین تھے سیف اللہ صاحب کے بیٹے بھی عالم دین ہیں اور لاہور میں مقیم ہی۔
میری دعا : اے اللہ اس خاندان کے بزرگ جید علماء تھے اور گاوں کے نمبر دار تھے ، وہی دینی سرداری اس خاندان میں دوبارہ اجاگر کردے ۔ اس خاندان کو محدثین کا خاندان بنا آمین۔یہ میرا خاندان ہے دو سو سال قبل ہمارے جد امجد ایک ہی تھے ۔ رحمھم اللہ اجمعین
0 تبصرے